چند دن پہلے ایک آرمی ریٹائرڈ آفیسر کے بیٹے ملنے آئے تو گپ شپ کے دوران کہنے لگے کہ مجھے نہیں یاد کہ والد صاحب نے کبھی میرا منہ یا ماتھا شفقت اور محبت سے چوما ہو۔
بہت منظم زندگی کے خواہاں ہیں اور آج بھی ان کی تعظیم ایسی ہے کہ ان کے ساتھ بیٹھتے بھی نہیں۔ ان کے سامنے آنکھیں نہیں اٹھاتے۔
گفتگو طویل ہوتی گئی۔ میں اپنے بچپن میں کھو کے رہ گیا۔ بہت کھٹی میٹھی یادیں آنکھوں میں نمی لاکر چپ چاپ واپس ہو گئیں۔
وہ صاحب بات بڑھاتے ہوئے کہنے لگے کہ
“”ایک بات تھوڑی عجیب ہے”‘
میں نے چونک کر سوالیہ انداز میں سر ہلایا وہ کیا ؟
کہنے لگے میرے بچے اپنے دادا جان سے بہت بے تکلف ہیں اور اتنی بے تکلفی ہمارے لیے ایک حیرانگی کا سمندر ہے۔
مزید برآں وہ کوئی بات کرتے میں نے ٹوکتے ہوئے اپنی کیفیت بیان کرنا شروع کر دی۔
میں سو رہا ہوتا ہوں اور میری بیٹی چارپائی پہ چڑھ کر میرے اوپر چھلانگیں لگا لگا کر چیختی چلاتی رہتی ہے اور خوش ہوتے ہوئے اتنا ہنستی ہے کہ اس کی ماں کو بیچ میں آ کر ڈانٹنا پڑتا ہے کہ اتنا نہیں ہنستے پھر بعد میں رو گی اور جب کوئی آرام کر رہا ہو تو شور نہیں کرتے۔
ملازمت کے بعد اگر گھر جائیں اور بچے جاگ رہے ہوں تو ان کو بس ایک جنون ہوتا ہے کہ بس ہمیں باہر گھمانے لے کے جائیں ۔
ہم الگ تھے اور ہمارے بچے بھی الگ ہیں اور ان کے بچے بھی الگ ہوں گے۔
والدین کے ساتھ دوستانہ ماحول گھر میں کتنی محرومیوں کو دور کرنے کا باعث بن سکتا ہے شاید میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔
کالج داخلے کے وقت ویگن میں سواری کرتے ہوئے والد صاحب کے کندھے پہ سر رکھ کر سونا آج بھی میرے لیے ناقابلِ فراموش لمحہ ہے۔ بچوں کو والدین نہیں سمجھیں گے تو اور کون سمجھ پائے گا۔
بہت خوب لکھا ہے آپ نے
جواب دیںحذف کریں