جمعہ، 14 فروری، 2020

بچپن کی یادیں

بچپن کی یادیں
بچپن یاد آتے ہی چہرے پہ ایک مسکراہٹ ابھر آتی ہے۔یادیں عمر کے جس حصے سے بھی آنکھوں کے سامنے آ جائیں ڈھیروں سوال اور ان کے جواب ساتھ لے آتی ہیں۔کہیں ہمیں شوخ پن دکھائی دیتا ہے تو کہیں حد درجہ شرمیلی یادیں
۔راولپنڈی (چوہڑ)سے گاؤں منتقل ہونا آج بھی ایک خواب سا لگتا ہے۔ شروع کے دن کتنے کٹھن تھے پھر آہستہ آہستہ وقت اپنے نشان نمایاں کرتا گیا اور گاؤں کی اجنبیت کہیں اندھیروں کی مسافر بن گئی۔ پرائمری سکول سے جڑی یادیں شروعات میں کسی قید خانے کا تاثر دیتی ہیں۔لگتا تھا جیسے ہمارے اپنوں نے ہی ہماری آزادی چھین کر ایک سودے بازی کر لی ہے۔ اب سوچتا ہوں کہ وہ ماں باپ کی آنکھوں سے اوجھل رہ کر سکول میں گزرے ہوئے چھ سے سات گھنٹے ان کے لیے کتنے اذیت ناک ہوتے ہوں گے۔

ایک دفعہ بخار یا کھانسی کی دوا کھانے بغیر سکول چلا گیا تو ابو جان اتنے پریشان ہوئے کہ سکول آکر دوا پلا کر گئے کہ کہیں دوبارہ بیماری غالب نہ آ جائے۔ اس دن کو اب یاد کر کے اپنی دوا نہ لینے والے ضد بہت شرمندہ کر دیتی ہے۔ سکول کی پرانی عمارت پہ لکڑی کے کوئلے سے لکھا ہوا ’’علم بڑی دولت ہے‘‘ہمیشہ نامعلوم خوش خط لکھاری کی تعریف سے روک نہ پاتا تھا۔آج پرائمری سکول کی وہ ٹوٹی پھوٹی عمارت تو کہیں نظر نہیں آتی لیکن اس کی یادیں آج بھی انمٹ نقوش کے ساتھ تازہ ہیں۔بچپن کے لمحات کی یادیں اپنے سحر سے نکلنے نہیں دیتیں۔ایسا لگتا ہے کہ ہم آنکھ کھولیں اور سب ایک خواب کی طرح ختم نہ ہو جائے ۔بچپن کی یادوں کو سکول کی یادوں سے جدا نہیں کیا جا سکتا ۔ سکول کی زندگی میں چھٹی کی خوشی آج کل ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی کیونکہ ہم بڑے ہوگئے ہیں۔ کبھی کبھار ہڑتال کی خبر سن کے دعائیں مانگتے رہنا کہ یا اللہ آج استاد جی سکول نہ آسکیں اور چھٹی پہ مہر لگ جائے اور پھر اچانک استادجی کاپیدل ہی گھاٹی یاپھرسکول کے اوپری راستہ جو ’’نیلے پٹ ‘‘سے مشہورتھا ، سے نمودار ہونا اور ساری خوشی اداسی میں بدل جانا آج بھی ایک تازہ یاد ہے۔
سکول کی چار دیواری نہ ہونے کے باعث گاڑیوں کی آمدروفت پہ نظریں جمائے نئی نئی گاڑیوں کو دیکھ کر حیرت کے دریا میں غوطہ زن ہوجانا۔
کہتے ہیں کہ بچے لڑجھگڑ کر پھر اکٹھے ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ پرانی باتوں کو بھولنے کا فن جانتے ہیں ۔ جوانی اور پھر ادھیڑپن میں پہنچ کر ایک اس عادت کی بہت کمی محسوس ہوتی ہے۔
چند دن پہلے چھوٹے بھائی کہ شادی پہ ایک صاحب سے آمنا سامنا ہوا تو دیکھتے ہی پہچان نہیں پایا ۔اُس زمانے میں انہوں نے اپنی بس رکھی ہوئی تھی جو’’ مظہر ڈرائیور‘‘کے نام سے مشہورتھے، اِس وقت اُن کا ذکر بھی بچپن کی ایک دردناک یاد سے جڑا ہوا ہے۔جس پک اپ پہ ہم سکول جایا کرتے تھے وہ کسی مجبوری کی وجہ سے میسر نہیں تھی اور ایک بس پہ سکول جانے کا اتفاق ہوا اور پھر راستے میں ایک ہولناک حادثہ ہوگیا ۔ مخالف سمت سے آنے والی گاڑی کے ایک مسافر کی جان چلی گئی اور کافی لوگ زخمی ہوئے۔ آج بھی آئینہ دیکھتے ہوئے ناک کی ہڈی اس حادثے کو پھر تازہ کر دیتی ہے۔
بچپن میں سب سے حسین یاد والدین کی وہ محبتیں اور شفقتیں ہیں جن کا کوئی مول نہیں۔ آج پردیس میں بیٹھ کر ان عنایتوں اور شفقتوں کو بہت یاد کرتا ہوں،دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ میری طرح ہر شخص کو اپنے بچپن میں والدین،اساتذہ،دوستوں کی بے شمار محبتیں اوریادیں دوبارہ بچپن کے زمانے میںلے جاتا ہوگا۔ بچپن تو چلا گیا اور واپس نہیں آئے گا لیکن وہ کریم والدین جن کی بدولت ہمارا بچپن وقت کی کڑی دھوپ سے بچتا رہا،آج بھی پاس ہیں۔یا اللہ تیرا شکر ہے۔

میری ذات میری تلاش

 آج تین دہائیاں پیچھے دیکھتا ہوں تو کوئی پکارا جاتا ہے اپنے والدین کی نسبت سے۔ اپنے آباء کی نسبت سے۔ کیا یہی وقت ہے اپنی ذات بارے سوال پوچھن...