بدھ، 22 جنوری، 2020

عدل کے مینار

ہمیں اپنی زندگی میں خود سے زیادہ دوسروں سے انصاف کی ضرورت اور توقع ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ بھلے لوگ جس جگہ سے گزر جائیں راستے ان کے نشان محفوظ کر لیتے ہیں تاکہ یادگار رہے۔
دنیائے اسلام میں خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو سب جانتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ اپنے دور خلافت میں جہاں اسلامی سلطنت کو وسعت ملی وہیں زمین کو عدل سے بھر دیا گیا۔
آپ رضی اللہ عنہ کے عدل و انصاف کے واقعات سے کتب بھری پڑی ہیں۔

اس دور جدید کی روشنی بھی ایسے چمکتے ستاروں کو ماند نہیں کر سکتی۔ آج بھی اللہ تعالی کی عطا سے اللہ والے تصرف کرتے ہیں اور اللہ تعالی کی شان و عظمت کے اظہار کا باعث ہیں۔
عمرہ کی سعادت سے واپس آنے والےایک دوست کی زبانی یہ واقعہ سنا ۔کہتے ہیں کہ ایک غریب شخص تلاش معاش  کے سلسلے میں مدینہ طیبہ روانہ ہوا۔ سالوں سال محنت سے پیسے کماتا رہا۔ اس کا معمول تھاکہ ہر ماہ ضروری مقدار میں تنخواہ کفیل سے لے لیتا اور باقی  بچا کر رکھتا رہتا۔بیٹیاں جوان ہوکر شادی کے لائق ہو رہی تھیں اور رشتے دیکھے جا رہے تھے۔ مزدور امید اور توکل میں ایک پہاڑ جیسا سخت ہوتا ہے وہ بھی اس امید سے خوش ہوتا کہ میں نےاچھے خاصے پیسے جمع کر لیے ہیں کہ شادیاں دھوم دھام سے کروں گا۔
وقت گزرتا گیا اور رخصت لیکر گھر جانے کا وقت قریب آگیا۔کفیل کے پاس گیا اور پاکستان واپسی  بارے آگاہ کیا اور ساتھ ہی اپنی جمع پونجی کا مطالبہ کیا۔ ہائے غریبی بھی کیسے ستم ڈھاتی ہے کیسے کیسے امتحان لیتی ہے۔ کفیل کے جواب نے جیسے سانس میں رکاوٹ ڈال دی ہو۔ آسمان جیسے سر سے غائب ہوگیا ہو زمین پاؤں سے سرک گئی ہو ۔
کفیل نے کہا"کونسے پیسے ؟ میں تو ہر ماہ تمھیں پوری تنخواہ ادا کر چکا ہوں" یہ کہتے ہوئے وہ ایک  فائل اٹھا لایا اور اس میں موجود ہر ماہ لیے جانے والی تنخواہ اور دستخط دکھانے لگا۔
کفیل کی اس دھوکے بازی اور اپنی سادگی پہ وہ شخص حیران و پریشاں واپس لوٹ آیا کہ اب گھر کس منہ سے جاؤں گا،؟بیٹیوں کی شادی کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟یہ سوچ اتنی اذیت ناک تھی کہ ایک ایک ساعت صدیوں جیسی لگنے لگی۔
رہائش گاہ واپس آکر مخلص دوستوں سے دکھ بیان کیا۔ سب یہ ماجرا سن کر دکھی ہوئے اور کہنے لگے دیار غیر ہے کسی نے ہماری فریاد نہیں سننی۔
اسی غم کے عالم میں ایک دوست جو خیال آیا کہ جاؤ جاکر کفیل سے کہہ دو کہ میری تسلی کے لیے مسجد نبوی میں آکر کہہ دے کہ "میں نے تمہارے کوئی پیسے نہیں دینے"اس امید پہ کہ کفیل اپنی اور میری حالت پہ رحم کرتے ہوئے اتنی بیباکی کبھی نہیں دکھائے گاوہ شخص چل پڑا لیکن کفیل فورا تیار ہوگیا اور مسجد نبوی چلنے کے لیے راضی بھی ہوگیا ۔اس  صورت حال کو دیکھ کر شخص کہنے لگا ٹھیک ہے مجھے یقین آگیا ہے تمھیں مسجد نبوی جانے کی کوئی ضرورت نہیں
اگلے دن اس کے دل میں خیال آیا کہ اب اسے جا کر کہتا ہوں کہ مجھے تسلی نہیں ہوئی آؤ اور خلیفہ دوئم عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی قبر کے سامنے جالیوں کو ہاتھ لگا کر کہہ دو کہ "میں نے تمہارے سارے پیسے ادا کر ہیں اور مزید کچھ بھی واجبات نہیں رہتے"حسب سابق کفیل تیار ہو گیا اور مسجد نبوی میں حاضر ہوگیا۔
جیسے ہی جالیوں کی طرف ہاتھ بڑھایا ہاتھ وہیں جکڑا گیا منہ سے کوئی لفظ ادا کرنا محال ہو گیا۔کفیل رونے لگ گیا اور بمشکل اتنا کہہ سکا کہ ''میں تمہارے سارے پیسے دوں گا مجھے معاف کردوبس معاف کردو"یوں ظالم کفیل اور اس مظلوم شخص کی جان میں جان آئی۔
اللہ تعالیٰ بے شک بڑا بے نیاز ہے۔

www.twitter.com/attockiann

ہم بدل گئے

چند سال پرانی بات ہے ۔لاہور سے میانوالی جاتے ہوئے بس میں سوار ہوا۔ بس درمیانے درجے کی تھی۔ رات کا وقت تھا ۔حسب عادت گاڑی اپنے مقررہ وقت سے لیٹ اپنے سٹینڈ سے چلی۔گاڑی کا ماحول اندھیری رات سے مختلف نہ تھا ۔
ایسے ماحول میں سو جانا آسان لگتا تھا لیکن کسی گہری سوچ میں ڈوب جانا میرا انتخاب تھا۔ سوچ گہری ہو یا سرسری اگر خوشگوار ہو تو چہرہ ایک حسین مسکراہٹ سے بھر جاتا ہے۔بچپن ،نوجوانی،اور پھر جوانی ساری زندگی اپنے ادوار کے ساتھ نگاہوں میں آ کھڑی ہوگئی۔


سفر ساتھ ساتھ طے ہوتا رہا اور اردگرد سے بے خبر اپنے بچپن کے دن یاد آنے لگے۔بچپن حرص اور ضد سے بھرا پڑا تھا۔ محبت کی حرص،میٹھی میٹھی رنگ برنگی گولیوں کی حرص اور نئے نئے کھلونوں کی حرص۔
بچے تھے والدین کی پریشانیوں سے بے خبر بس اپنی ضد پہ قائم رہنا۔
پھر بڑے ہوتے ہوئے والدین کی سرخ آنکھیں اور اداس چہرے آلام کا پتہ دینے لگے۔پڑھائی دل کی بجائے دماغ سے کرنے لگے۔وقت اب رکنے سے معذوری ظاہر کرتا اور ہم بچپن کی بےفکر زندگی کو یاد کرکے افسردہ ہوتے جاتے۔
سفر ابھی جاری تھا لیکن زندگی کا اور گاڑی میانوالی قریب از منزل ہوچکی تھی۔ میرے ساتھ بیٹھے صاحب بس کے عملہ کی طرف سے ملنے والے بسکٹ اور دیگر چیزیں دستی تھیلے میں ڈالنے لگے۔ پہلے پہل نظر پڑتے ہی مجھے عجیب سا لگا لیکن پھر ان صاحب کی توجہ میری طرف ہوئی اور گویا ہوئے کہ "میں تو کھاتا نہیں سوچا بچوں کے لیے لے جاتا ہوں "
میں نے بھی تائید میں سر ہلا دیا اور دل کی اصل کیفیت کو دبا دیا۔ آج اتنے عرصہ بعد ادراک ہوا کہ میں بھی بدل گیا ہوں۔
ہوا کچھ یوں کہ آج ایک نوجوان ( جو میرے پاس کام کرتا ہے) گھر سے بنی ہوئی ایک سوغات جو چاول پیس کر دیگر خشک میوہ جات کے ملاپ سے تیار کی گئی تھی،میرے لئے لایا ۔ میں نے چکھ کر دیکھا تو بہت بھلی لگی۔ دل کیا ساری کھا جاؤں لیکن اچانک ہی ایک خیال دل میں آیا اور میں  نے یو ٹرن لے لیا۔ وہ اپنی بیٹی کے لیے رکھ دیا کہ شام گھر لے جاؤں گا۔


واقعی میں بدل گیا
ہم بدل گئے
سب بدل گئے
ہاں
اب بدل گئے


میری ذات میری تلاش

 آج تین دہائیاں پیچھے دیکھتا ہوں تو کوئی پکارا جاتا ہے اپنے والدین کی نسبت سے۔ اپنے آباء کی نسبت سے۔ کیا یہی وقت ہے اپنی ذات بارے سوال پوچھن...