اتوار، 29 نومبر، 2020

بے چارے مزدور اور ناحق الزام تراشیاں

زندگی رواں دواں بڑھتی جارہی ہے۔ وقت کی تیزی ہمیں کسی کو بھول جانا بھی یاد کرواتی رہتی ہے اور کبھی کسی کا یاد کرنا بھی بھلا دیتی ہے۔زندگی کے مختلف مرحلے ہمیں مختلف اندیشوں میں مبتلا رکھتے ہیں مثلا بچپن کھیل کود اور چھوٹی چھوٹی خواہشات کے پورا نہ ہونے کا اندیشہ اور پھر جوانی کے افسانوی ماحول میں اکیلے پن اور کسی پیارے کی جدائی کے اندیشوں سے دوچار ہونا وغیرہ وغیرہ۔
پھر اچانک زندگی میں ایک نیا موڑ آتا ہے اور شادی شدہ ہونے سے پہلے یا بعد ذریعہ معاش بےشمار طرز کے اندیشے اور خطرات سے دوچار کردیتا ہے۔ غربت ،افلاس اور معاشی محتاجی ہر لمحہ مدنظر رہتی ہے۔ کاروبار یا ملازمت سامنے دو راستے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر ملازمت کو دیکھیں تو سرکاری اور نجی دو الگ الگ دنیائیں ہیں ۔ پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والے ایک عام انسان کی حیثیت سے میرے تجربات بہت تلخ ہیں ۔
ایک شام مجھے یہ احساس ہوا کہ مزدور بھی ایک غلام ہی ہوتا ہے کئی کام اور فیصلے اپنے سیٹھ کے حکم یا اجازت کے بغیر نہیں کر سکتا ۔ گھر جانے کے لیے چھٹی نہیں ملی اور بےبسی نے دل کی دنیا تہس نہس کر دی۔جذبات نے ایک آن میں ہی کئی فیصلے صادر کر دئیے۔ انہی سوچوں میں گم دو تین گزر گئے اور ایک نئی شام ایک نئے درد کو میرے سامنے لے آئی ۔
منظر نامہ کچھ یوں تھا کہ شام ہو چکی تھی چھٹی ہونے کچھ ہی وقت باقی تھا اور اذان مغرب ہو گئی۔ کافی دنوں بعد آج کام میں تیزی آئی تھی تو کام کو حجم بڑھ چکا تھا وقت کی قلت پیش نظر تھی۔ اچانک ایک کال آئی کہ فلاں مزدور اپنے کام والی جگہ سے غائب ہے کام میں تاخیر ہو رہی ہے۔ میرا جواب یوں تھا کہ نماز کا وقت ہو چکا ہے نماز کے علاؤہ کوئی اور وجہ نہیں ہو سکتی ۔سامنے سے یہ سننے کو ملا کہ یہ مزدور توروزانہ تین ساڑھے تین گھنٹے وقت ضائع کرتا ہے جس کی وجہ سے کام کی تکمیل میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ بہت کوشش کی کہ آج کام میں آنے والی تیزی اور دیگر وجوہات کی بابت بدگمانی دور کر سکوں لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ درگزر کرتے ہوئے شکایت دور کرنے کے لیے خود وہاں کام کرنے چلا گیا اور نماز کے بعد جب وہ واپس آیا تو میں پھر لوٹ آیا۔ واپس آکر جیسے ہی ہال میں داخل ہوا تو وہی صاحب چار بندوں کو اکٹھا کر کے وہی گردان الاپ رہے ہیں اور انتہائی ڈھیٹائی کا مظاہرہ کر ہے ہیں ۔ اب کیا تھا جذبات نے پھر دل کا رخ کیا لیکن صبر کیا اور محبت سے انہیں تصویر کے دونوں رخ بتا کر سمجھایا کہ آپ اس طرح کے الزامات نہ لگائیں۔ وہ مصر رہے۔ 


آخر چیونٹی بھی کاٹ ہی لیتی ہے یہ جانتے ہوئے کہ اب اسے مسل دیا جائے گا ۔ مختلف دلائل سے اوقات کار کے تفصیلات دکھا کر سمجھایا لیکن وہ بھڑک کر کہنے لگے مجھ سے غلطی ہوئی کہ تم سے شکایت کی اب تو جنرل مینیجر صاحب کو ہی فون کرنا پڑے گا ۔اللہ اکبر دھمکی اور وہ بھی حقیقت حال سے لاعلم ہو تے ہوئے۔ میں نے ان سے کہا کہ ابھی چلیں میرے ساتھ اور میرے سامنے ہی آپ دھمکی کو عملی جامہ پہنائیں۔ 
جنرل مینیجر صاحب نے بات سنی پیر تک انتظار کرنے کو بولا اور چلے گئے۔ اتنے میں ایک اور صاحب صلح کے میرے پاس آئے ۔ میں نے انہیں کہا کہ جھوٹے الزامات لگا کر کسی کی ملازمت کو داغدار کرنا کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے۔۔
میرے یہ الفاظ ابھی مکمل بھی نہیں ہوئے تھے کہ وہ مزدور بھائی بولے کہ میرا اللہ جانتا ہے کہ میں کتنا وقت ضائع کرتا ہوں اور میں وقت ضائع بھی کیوں کروں گا مجھے اضافی وقت کی کوئی اجرت نہیں ملتی۔ چھٹی کے سائرن کے ساتھ ہی میرا بھی دل کرتاہے کہ میں گھر چلا جاؤں لیکن میرے کام کو نوعیت کو نہ جاننے والا ایک انسان کیسے ایسے الزامات لگا سکتا ہے؟ ان کی آنکھیں نم تھیں آواز بھرا گئی تھی اور الفاظ دل چیرنے والے تھے"" شام کر گھر جاتے ہی تھکاوٹ سے چارپائی پہ پڑتا ہوں ہوش نہیں رہتا اور کل میرے سات سال کی بیٹی مجھے پونا گھنٹہ ہلاتی رہی کہ ابو مجھے دوائی دلانے کے جائیں لیکن جسم میں ہلنے کی بھی سکت نہیں تھی ۔ پچھلے چھ دن سے یہی کیفیت ہے اور الزام بھی یہ لگ رہا ہے کہ جان بوجھ کر تاخیر کر رہا ہوں ۔۔۔۔
وہ روتے جارہے تھے اور میرے ضبط کو آزمائش سے دوچار کرچکے تھے۔۔

یا اللہ لوگ کیسے تصویر کا ایک رخ دیکھ کر اور پھر حقیقت جاننے کی باوجود بے جا تنقید اور الزام تراشی کر لیتے ہیں 
یا اللہ تیری پناہ یا اللہ تیری پناہ 

میری ذات میری تلاش

 آج تین دہائیاں پیچھے دیکھتا ہوں تو کوئی پکارا جاتا ہے اپنے والدین کی نسبت سے۔ اپنے آباء کی نسبت سے۔ کیا یہی وقت ہے اپنی ذات بارے سوال پوچھن...