ہفتہ، 26 نومبر، 2022

میری ذات میری تلاش

 آج تین دہائیاں پیچھے دیکھتا ہوں تو کوئی پکارا جاتا ہے اپنے والدین کی نسبت سے۔ اپنے آباء کی نسبت سے۔ کیا یہی وقت ہے اپنی ذات بارے سوال پوچھنے کا ؟


میں کون ہوں میری ذات خود سے کتنی آشنا ہے کتنی آگاہ ہے؟ کیا وقت ان سوالوں کے جواب خود سامنے لا سکتا ہے ؟


ہمیں پیدائش کے بعد بہت سارے کام نہیں کرنے پڑتے اور وہ کام ہمارے لئے سرانجام دے دیئے جاتے ہیں لیکن بہت سے کام ایسے بھی ہیں جو ہمیشہ خود ہی کرنے پڑتے ہیں۔


ان کاموں میں سے ایک کام اپنی تلاش ہے۔ وقت آنے پر جب یہ سوال سامنے آ کھڑا ہوتا ہے تو ہم جھنجھلا جاتے ہیں پریشان ہوجاتے ہیں جیسے کوئی اجنبی ہمارے سامنے آنکھیں لال کئے گھورے جارہا ہو۔


لیکن وہی وقت اس سوال سے دوستی کا ہوتا ہے وہی وقت ایک نئی شروعات کا ہوتا ہے اور وہی وقت ہماری تقدیر کے بدلنے کا ہوتا ہے ۔


ایک سوال سے کتنے نئے اور جاندار سوالات پیدا ہوتے ہیں “جیسے میں کون ہوں؟” سے “میں کیوں ہوں ؟” کا سفر کٹ جاتا ہے اور پھر انسان اس سوال پر آ پہنچتا ہے کہ “میں کس کے لئے ہوں؟”


ان سوالوں کی کھوج انسان کو عام سے خاص بنا دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



ہمارا بچپن اور ہمارے بچوں کا بچپن

 چند دن پہلے ایک آرمی ریٹائرڈ آفیسر کے بیٹے ملنے آئے تو گپ شپ کے دوران کہنے لگے کہ مجھے نہیں یاد کہ والد صاحب نے کبھی میرا منہ یا ماتھا شفقت اور محبت سے چوما ہو۔

بہت منظم زندگی کے خواہاں ہیں اور آج بھی ان کی تعظیم ایسی ہے کہ ان کے ساتھ بیٹھتے بھی نہیں۔ ان کے سامنے آنکھیں نہیں اٹھاتے۔

گفتگو طویل ہوتی گئی۔ میں اپنے بچپن میں کھو کے رہ گیا۔ بہت کھٹی میٹھی یادیں آنکھوں میں نمی لاکر چپ چاپ واپس ہو گئیں۔

وہ صاحب بات بڑھاتے ہوئے کہنے لگے کہ

“”ایک بات تھوڑی عجیب ہے”‘

میں نے چونک کر سوالیہ انداز میں سر ہلایا وہ کیا ؟

کہنے لگے میرے بچے اپنے دادا جان سے بہت بے تکلف ہیں اور اتنی بے تکلفی ہمارے لیے ایک حیرانگی کا سمندر ہے۔

مزید برآں وہ کوئی بات کرتے میں نے ٹوکتے ہوئے اپنی کیفیت بیان کرنا شروع کر دی۔

میں سو رہا ہوتا ہوں اور میری بیٹی چارپائی پہ چڑھ کر میرے اوپر چھلانگیں لگا لگا کر چیختی چلاتی رہتی ہے اور خوش ہوتے ہوئے اتنا ہنستی ہے کہ اس کی ماں کو بیچ میں آ کر ڈانٹنا پڑتا ہے کہ اتنا نہیں ہنستے پھر بعد میں رو گی اور جب کوئی آرام کر رہا ہو تو شور نہیں کرتے۔

ملازمت کے بعد اگر گھر جائیں اور بچے جاگ رہے ہوں تو ان کو بس ایک جنون ہوتا ہے کہ بس ہمیں باہر گھمانے لے کے جائیں ۔

ہم الگ تھے اور ہمارے بچے بھی الگ ہیں اور ان کے بچے بھی الگ ہوں گے۔

والدین کے ساتھ دوستانہ ماحول گھر میں کتنی محرومیوں کو دور کرنے کا باعث بن سکتا ہے شاید میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔

کالج داخلے کے وقت ویگن میں سواری کرتے ہوئے والد صاحب کے کندھے پہ سر رکھ کر سونا آج بھی میرے لیے ناقابلِ فراموش لمحہ ہے۔ بچوں کو والدین نہیں سمجھیں گے تو اور کون سمجھ پائے گا۔

میری ذات میری تلاش

 آج تین دہائیاں پیچھے دیکھتا ہوں تو کوئی پکارا جاتا ہے اپنے والدین کی نسبت سے۔ اپنے آباء کی نسبت سے۔ کیا یہی وقت ہے اپنی ذات بارے سوال پوچھن...