پیر، 25 نومبر، 2019

امام مسجد اور گمنام اللہ والا

دوران ملازمت ایک دوست جو فیصل آباد کے قریبی شہر ڈچکوٹ کے رہنے والے تھے ،سے گپ شپ ہوتی رہتی تھی۔
ایک دفعہ نیکی اور اس کے طریقوں پر بات چلی تو بہت طویل ہو گئی اور اسی دوران ایک کمال کے
واقعے کی روایت مجھ تک پہنچی۔
 وہی دوست(اعظم) بتاتے ہیں کہ ایک مسجد کے امام صاحب کافی صاحب تقوی اور بے لوث محبت والے انسان تھے۔اہل محلہ اور آس پاس کے لوگ ان کی بہت عزت کرے تھے۔ اسی عزت اور محبت کی وجہ سے وہ جب بھی کسی معاملے میں اپیل کرتے لوگ جوش و خروش سے اس میں حصہ لیتے۔

مسجد کے معاملات میں تو اور بھی جوش نظر آتا ۔وقت کے ساتھ ساتھ مسجد کو وسیع کرنے کی ضرورت پیش آتی رہتی۔امام صاحب مسجد کے اسپیکر میں مالی تعاون کے لئے صدا بلند کرتے اور اللہ کے فضل سے لوگ جوش و خروش سے اس کار خیر میں حصہ لیتے۔
اس دوران دلچسپ بات یہ تھی کہ ہمیشہ یوں ہوتا کہ رات کی تاریکی میں ہی کوئی صاحب دل چپ چاپ مسجد کی محراب میں ایک خطیر رقم رکھ جاتا جس سے تعمیراتی کام بخوبی شروع کروادیا جا سکتا تھا۔پھر جب ضرورت پڑتی پھر یہی عمل دہرایا جاتا۔

سالہا سال کی اسی روایت میں وہ گمنام شخص کبھی سامنے نہیں آیا اور رات کی تاریکی میں ہی ڈوبا رہا ۔لوگوں کا تجسس عروج پر پہنچ کر پھر ٹھنڈا ہو جاتا کہ جو بھی اللہ کا بندہ ہے بہت نیک انسان ہے۔
انہی معاملات میں ایک شخص بہت متجسس ہوا اور اسی دھن میں لگ گیا کہ اس اللہ والے گمنام انسان کا سراغ لگانا ہے۔
بہار کی آمد آمد تھی کہ امیدوں کو بھی چار چاند لگ گئے اور ایک بار پھر وہی اعلان لوگوں کی سماعتوں کی نزر ہوا۔
اسی انتظار میں بیٹھا وہ شخص روزانہ مسجد کے ایک کونے میں خود کو چٹائیوں میں چھپا کر دیکھنے لگ گیا کہ آخر ایک نہ ایک  رات وہ شخص ضرور آئے گا ۔ایک رات معمول جاری تھا اور رات کے پچھلے پہر کوئی
شخص میں حاضر ہوا۔وضو کیا اور پھر ایک تھیلا مسجد کی محراب میں رکھ کر نوافل میں مشغول ہو گیا۔
چہرے کا رخ دوسری جانب ہونے کی باعث پہچاننا دشوار تھا بالآخر فجر کا وقت ہوا اور اذان کی صدا بلند ہوئی اور اپنے دل کے گوہر سے آگاہی حاصل ہو گئی۔

نماز فجر ہوئی دعا کے بعد امام صاحب کھڑے ہوئے ۔سارے حاضرین کو مخاطب کیا اور مسرت سے اعلان کیا کہ آج رات کوئی اللہ کا بندہ مسجد میں  روپوں کا تھیلا چھوڑ گیا اور مسجد کی تعمیراتی اخراجات کے لئے چھوڑ کر گیا ہے اور اب مزید چندے کی ضرورت نہیں ۔اب تعمیراتی کام اچھے طریقے سے جاری رکھا جائے گا۔
اس کے ساتھ ہی اس اللہ والے کا پتا چل چکا تھا اور وہ اللہ والا گمنام شخص مسجد کے امام صاحب تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ امام صاحب صاحب حیثیت تھے دو چار ایکڑ زمین کے مالک تھے اور کسی سے کچھ نہیں مانگتے تھے اور اللہ کی رضا کے لئے امامت کی زمہ داری نبہا رہے تھے۔ اور اس طرح وہ اپنی زندگی کی جمع پونجی اللہ کے یہاں جمع کروا رہے تھے۔

اللہ تعالی کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہمارا دل بھی اجلا ہو جائے ۔
آمین ثم آمین
عاصم عباس اعوان

میری ذات میری تلاش

 آج تین دہائیاں پیچھے دیکھتا ہوں تو کوئی پکارا جاتا ہے اپنے والدین کی نسبت سے۔ اپنے آباء کی نسبت سے۔ کیا یہی وقت ہے اپنی ذات بارے سوال پوچھن...