جمعہ، 13 اگست، 2021

خاموشی اہم ہے

 مزدور معمول کی طرح آج بھی کام سے فارغ ہو کر گھر پہنچا اور جوتے اتارنے لگا۔ 

ام العائشہ ! آج گھر میں بہت خاموشی ہے خیر تو ہے نا؟

جی الحمدللہ سب خیریت ہے بس عائشہ سید ضرغام سے کھیلنے گئی ہوئی ہے۔ 

عائشہ اپنے دادی چھوٹی بہن اور والدین کے ساتھ کرایے کے مکان میں رہتی ہے اور سید ضرغام اسی کرایے کا مکان کے مالک کا پوتا ہے۔ 

ابو العائشہ کپڑے بدلنے اور منہ ہاتھ دھونے میں مصروف ہے جبکہ اسی دوران عائشہ بھی گھر میں داخل ہو جاتی ہے۔ 

عائشہ : بابا آج آپ نے آنے میں اتنی دیر کر دی۔ 

ابو العائشہ: جی بیٹا آج واقعی دیر ہوگئی کیونکہ سڑکیں گاڑیوں کے ہجوم سے بھری ہوئیں تھیں۔ 

عائشہ: بابا آج میں سکول گئی تھی وہاں مجھے ماہ نور نے دھکا دیا تھا اور عائشہ حسنین نے تلاوت کی تھی اور جب میں اماں جان کے ساتھ سکول سے واپس آرہی تھی تو اماں نے مجھے دکان سے چیز لیکر نہیں دی اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایسے ہی نجانے کتنے ہی واقعات سنا دیے ۔

ابو العائشہ تحمل کے ساتھ اپنی بیٹی کا منہ تکتے ہوئے خاموش رہا لیکن جب اسے محسوس ہوا کہ یہاں تو ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری رہے گا اگر چپ چاپ بیٹھا سنتا رہا۔ 

 ابو العائشہ: بیٹا اتنا زیادہ بولنا مناسب نہیں۔ ہر وقت بولتے رہنا اور بلاوجہ بولتے رہنا اچھی عادت نہیں۔ 

عائشہ: بابا باتیں تو کرنی ہوتی ہیں نا. آپ بھی تو باتیں کرتے ہیں ۔ سکول میں بھی کوئی ایسا نہیں جو بولتا نہ ہو ۔

ابو العائشہ: جب بھی بولیں اچھی بات کرنی چاہیے اور ٹیچر نے آپ کو بتایا ہوگا کہ زبان بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے اس کا اچھا استعمال کرنا چاہیے۔ 

عائشہ: رونے کے انداز میں بابا آپ مجھے باتیں کرنے روک رہے ہیں تو میں پھر کس سے باتیں کروں میں اب آپ سے ناراض ہو جاؤں گی۔ 

ابو العائشہ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اپنی چار سال کی بیٹی کو پیار کرتے ہوئے ۔

""بیٹا ایسا نہیں کہتے۔ بابا سے بھی بھلا کوئی ناراض ہوتا ہے۔ ""

ابو العائشہ: دیکھو بیٹا انسان جب بھی کوئی بات کرتا ہے وہ بات اس کے اندر پہلے سے موجود علم اور معلومات کی مرہون منت ہوتی ہے۔ جب انسان فضول باتیں کرتے ہوئے شور مچاتا ہے تو یہ اس بات کی عکاسی ہے کہ اس کا علم ابھی کم ہے یا ناقص ہے۔ جیسے جیسے انسان کے علم کا پیمانہ بھرنے لگتا ہے اس کی گفتگو کم ،جامع اور بامقصد ہو جاتی ہے۔ 

عائشہ: بابا یہ تو مشکل باتیں ہیں مجھے کسی آسان سی مثال سے سمجھائیں۔ 

ابو العائشہ: آؤ بیٹا یہاں دیکھو ۔ یہ ایک خالی بالٹی ہے اور یہ پانی کا نلکا۔ جب ہم خالی بالٹی کو نلکے کے نیچے رکھ کر پانی چلا دیتے ہیں تو پانی کے بالٹی میں گرتے ہی ایک شور پیدا ہوتا ہے۔ 

عائشہ: جی بابا ایسا ہی ہے۔ 

ابو العائشہ: لیکن بیٹا جیسے جیسے بالٹی بھرتی جاتی ہے شور کم ہوتا جاتا ہے اور ہمیں واضح فرق محسوس ہونے لگتا ہے۔ بالکل اسی طرح علم کے بڑھتے ہی انسان کی گفتگو کم اور با مقصد ہو جاتی ہے اور وہ فضول باتوں سے بچنے لگتا ہے۔ 

عائشہ خوش ہوتے ہوئے 

"" جی بابا اب میں سمجھ گئی""



میں بے کار باتوں سے بچ کر ہمیشہ 

کروں تیری   حمد و ثنا      یا الٰہی





3 تبصرے:

میری ذات میری تلاش

 آج تین دہائیاں پیچھے دیکھتا ہوں تو کوئی پکارا جاتا ہے اپنے والدین کی نسبت سے۔ اپنے آباء کی نسبت سے۔ کیا یہی وقت ہے اپنی ذات بارے سوال پوچھن...