ہفتہ، 26 نومبر، 2022

میری ذات میری تلاش

 آج تین دہائیاں پیچھے دیکھتا ہوں تو کوئی پکارا جاتا ہے اپنے والدین کی نسبت سے۔ اپنے آباء کی نسبت سے۔ کیا یہی وقت ہے اپنی ذات بارے سوال پوچھنے کا ؟


میں کون ہوں میری ذات خود سے کتنی آشنا ہے کتنی آگاہ ہے؟ کیا وقت ان سوالوں کے جواب خود سامنے لا سکتا ہے ؟


ہمیں پیدائش کے بعد بہت سارے کام نہیں کرنے پڑتے اور وہ کام ہمارے لئے سرانجام دے دیئے جاتے ہیں لیکن بہت سے کام ایسے بھی ہیں جو ہمیشہ خود ہی کرنے پڑتے ہیں۔


ان کاموں میں سے ایک کام اپنی تلاش ہے۔ وقت آنے پر جب یہ سوال سامنے آ کھڑا ہوتا ہے تو ہم جھنجھلا جاتے ہیں پریشان ہوجاتے ہیں جیسے کوئی اجنبی ہمارے سامنے آنکھیں لال کئے گھورے جارہا ہو۔


لیکن وہی وقت اس سوال سے دوستی کا ہوتا ہے وہی وقت ایک نئی شروعات کا ہوتا ہے اور وہی وقت ہماری تقدیر کے بدلنے کا ہوتا ہے ۔


ایک سوال سے کتنے نئے اور جاندار سوالات پیدا ہوتے ہیں “جیسے میں کون ہوں؟” سے “میں کیوں ہوں ؟” کا سفر کٹ جاتا ہے اور پھر انسان اس سوال پر آ پہنچتا ہے کہ “میں کس کے لئے ہوں؟”


ان سوالوں کی کھوج انسان کو عام سے خاص بنا دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



ہمارا بچپن اور ہمارے بچوں کا بچپن

 چند دن پہلے ایک آرمی ریٹائرڈ آفیسر کے بیٹے ملنے آئے تو گپ شپ کے دوران کہنے لگے کہ مجھے نہیں یاد کہ والد صاحب نے کبھی میرا منہ یا ماتھا شفقت اور محبت سے چوما ہو۔

بہت منظم زندگی کے خواہاں ہیں اور آج بھی ان کی تعظیم ایسی ہے کہ ان کے ساتھ بیٹھتے بھی نہیں۔ ان کے سامنے آنکھیں نہیں اٹھاتے۔

گفتگو طویل ہوتی گئی۔ میں اپنے بچپن میں کھو کے رہ گیا۔ بہت کھٹی میٹھی یادیں آنکھوں میں نمی لاکر چپ چاپ واپس ہو گئیں۔

وہ صاحب بات بڑھاتے ہوئے کہنے لگے کہ

“”ایک بات تھوڑی عجیب ہے”‘

میں نے چونک کر سوالیہ انداز میں سر ہلایا وہ کیا ؟

کہنے لگے میرے بچے اپنے دادا جان سے بہت بے تکلف ہیں اور اتنی بے تکلفی ہمارے لیے ایک حیرانگی کا سمندر ہے۔

مزید برآں وہ کوئی بات کرتے میں نے ٹوکتے ہوئے اپنی کیفیت بیان کرنا شروع کر دی۔

میں سو رہا ہوتا ہوں اور میری بیٹی چارپائی پہ چڑھ کر میرے اوپر چھلانگیں لگا لگا کر چیختی چلاتی رہتی ہے اور خوش ہوتے ہوئے اتنا ہنستی ہے کہ اس کی ماں کو بیچ میں آ کر ڈانٹنا پڑتا ہے کہ اتنا نہیں ہنستے پھر بعد میں رو گی اور جب کوئی آرام کر رہا ہو تو شور نہیں کرتے۔

ملازمت کے بعد اگر گھر جائیں اور بچے جاگ رہے ہوں تو ان کو بس ایک جنون ہوتا ہے کہ بس ہمیں باہر گھمانے لے کے جائیں ۔

ہم الگ تھے اور ہمارے بچے بھی الگ ہیں اور ان کے بچے بھی الگ ہوں گے۔

والدین کے ساتھ دوستانہ ماحول گھر میں کتنی محرومیوں کو دور کرنے کا باعث بن سکتا ہے شاید میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔

کالج داخلے کے وقت ویگن میں سواری کرتے ہوئے والد صاحب کے کندھے پہ سر رکھ کر سونا آج بھی میرے لیے ناقابلِ فراموش لمحہ ہے۔ بچوں کو والدین نہیں سمجھیں گے تو اور کون سمجھ پائے گا۔

بدھ، 15 ستمبر، 2021

عجب تماشا ہے

 

 صحت و تندرستی اللّٰہ تعالٰی کی عظیم نعمت ہے۔ زندگی کے سارے رنگ اور پر لطف لمحات اور نظارے صحت کے ساتھ ہی جچتے ہیں۔ 

آج کل پاکستان میں وبائی امراض کےلئے بہت احتیاطی تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں۔ موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی نزلہ اور بخار کے مریض بڑھ گئے ہیں۔ بخار تو بہت زیادہ ہی عام ہو چکا ہے۔ پچھلے چند ہفتوں سے ہم بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں اور کل بالآخر معالج نے چند ٹیسٹ لکھ کر دیے کہ یہ کروائیں اور پھر رپورٹ چیک کرکے دیکھیں گے کہیں یہ بخار ٹائیفائڈ تو نہیں ۔ 

اب جب ٹیسٹ کروانے گئے تو معلوم ہوا کہ اس ٹیسٹ پر تو سرکار نے پابندی لگا رکھی ہے۔ وجہ پوچھنی تو سرکار سے چاہیے تھی لیکن ہم نے لیب والے سے ہی پوچھ ڈالی۔ وہ کہنے لگے کہ ہر کوئی یہ ٹیسٹ کروانے دوڑ پڑتا ہے اس لیے پابندی لگا دی گئی ہے۔ 

سننے میں بہت عجیب لگتا ہے لیکن حقیقت تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ معاملہ ہے کیا۔ 

کافی جگہ سے پتا کیا لیکن انکار ہی ملا۔ البتہ چھوٹے شہروں میں جو چھوٹی چھوٹی لیبارٹریز کھلی ہوئی  ہیں وہ اس پابندی سے خود کو مبرا سمجھتی ہیں۔

جمعہ، 13 اگست، 2021

خاموشی اہم ہے

 مزدور معمول کی طرح آج بھی کام سے فارغ ہو کر گھر پہنچا اور جوتے اتارنے لگا۔ 

ام العائشہ ! آج گھر میں بہت خاموشی ہے خیر تو ہے نا؟

جی الحمدللہ سب خیریت ہے بس عائشہ سید ضرغام سے کھیلنے گئی ہوئی ہے۔ 

عائشہ اپنے دادی چھوٹی بہن اور والدین کے ساتھ کرایے کے مکان میں رہتی ہے اور سید ضرغام اسی کرایے کا مکان کے مالک کا پوتا ہے۔ 

ابو العائشہ کپڑے بدلنے اور منہ ہاتھ دھونے میں مصروف ہے جبکہ اسی دوران عائشہ بھی گھر میں داخل ہو جاتی ہے۔ 

عائشہ : بابا آج آپ نے آنے میں اتنی دیر کر دی۔ 

ابو العائشہ: جی بیٹا آج واقعی دیر ہوگئی کیونکہ سڑکیں گاڑیوں کے ہجوم سے بھری ہوئیں تھیں۔ 

عائشہ: بابا آج میں سکول گئی تھی وہاں مجھے ماہ نور نے دھکا دیا تھا اور عائشہ حسنین نے تلاوت کی تھی اور جب میں اماں جان کے ساتھ سکول سے واپس آرہی تھی تو اماں نے مجھے دکان سے چیز لیکر نہیں دی اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایسے ہی نجانے کتنے ہی واقعات سنا دیے ۔

ابو العائشہ تحمل کے ساتھ اپنی بیٹی کا منہ تکتے ہوئے خاموش رہا لیکن جب اسے محسوس ہوا کہ یہاں تو ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری رہے گا اگر چپ چاپ بیٹھا سنتا رہا۔ 

 ابو العائشہ: بیٹا اتنا زیادہ بولنا مناسب نہیں۔ ہر وقت بولتے رہنا اور بلاوجہ بولتے رہنا اچھی عادت نہیں۔ 

عائشہ: بابا باتیں تو کرنی ہوتی ہیں نا. آپ بھی تو باتیں کرتے ہیں ۔ سکول میں بھی کوئی ایسا نہیں جو بولتا نہ ہو ۔

ابو العائشہ: جب بھی بولیں اچھی بات کرنی چاہیے اور ٹیچر نے آپ کو بتایا ہوگا کہ زبان بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے اس کا اچھا استعمال کرنا چاہیے۔ 

عائشہ: رونے کے انداز میں بابا آپ مجھے باتیں کرنے روک رہے ہیں تو میں پھر کس سے باتیں کروں میں اب آپ سے ناراض ہو جاؤں گی۔ 

ابو العائشہ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اپنی چار سال کی بیٹی کو پیار کرتے ہوئے ۔

""بیٹا ایسا نہیں کہتے۔ بابا سے بھی بھلا کوئی ناراض ہوتا ہے۔ ""

ابو العائشہ: دیکھو بیٹا انسان جب بھی کوئی بات کرتا ہے وہ بات اس کے اندر پہلے سے موجود علم اور معلومات کی مرہون منت ہوتی ہے۔ جب انسان فضول باتیں کرتے ہوئے شور مچاتا ہے تو یہ اس بات کی عکاسی ہے کہ اس کا علم ابھی کم ہے یا ناقص ہے۔ جیسے جیسے انسان کے علم کا پیمانہ بھرنے لگتا ہے اس کی گفتگو کم ،جامع اور بامقصد ہو جاتی ہے۔ 

عائشہ: بابا یہ تو مشکل باتیں ہیں مجھے کسی آسان سی مثال سے سمجھائیں۔ 

ابو العائشہ: آؤ بیٹا یہاں دیکھو ۔ یہ ایک خالی بالٹی ہے اور یہ پانی کا نلکا۔ جب ہم خالی بالٹی کو نلکے کے نیچے رکھ کر پانی چلا دیتے ہیں تو پانی کے بالٹی میں گرتے ہی ایک شور پیدا ہوتا ہے۔ 

عائشہ: جی بابا ایسا ہی ہے۔ 

ابو العائشہ: لیکن بیٹا جیسے جیسے بالٹی بھرتی جاتی ہے شور کم ہوتا جاتا ہے اور ہمیں واضح فرق محسوس ہونے لگتا ہے۔ بالکل اسی طرح علم کے بڑھتے ہی انسان کی گفتگو کم اور با مقصد ہو جاتی ہے اور وہ فضول باتوں سے بچنے لگتا ہے۔ 

عائشہ خوش ہوتے ہوئے 

"" جی بابا اب میں سمجھ گئی""



میں بے کار باتوں سے بچ کر ہمیشہ 

کروں تیری   حمد و ثنا      یا الٰہی





جمعرات، 25 مارچ، 2021

اگر آپ برا نہ منائیں تو

 

 


 

مینیجر صاحب بہت خوش تھے کہنے لگے کیوں نہ کچھ کھایا


جائے ؟ آفس کے سامنے ہی ایک بہت ہی چھوٹی سی دکان تھی جہاں گرما گرم چائے ،سموسے اور پکوڑے وغیرہ وغیرہ تیار کیے جاتے تھے۔ عبد اللہ چاچا اس دکان کو بڑی خوش اسلوبی سے چلایا کرتا تھا۔ عبد اللہ چاچا کے ساتھ ان کا ایک جواں سال بیٹا بھی کام کرتا تھا اور وہی آفس میں برتن اور پیسے لینے آیا کرتا تھا۔ آج عبداللہ چاچا خود آفس آئے گرما گرم سموسے کا آرڈر پہنچایا اور پیسے لینے بھی آئے۔ یہ سب معمول سے ہٹ کر تھا اور سب نے ہی اس کو محسوس کیا۔ باقی سب تو چہ رہے لیکن مینیجر صاحب سے رہا نہ گیا اور بولے چاچا جی آج آپ کا بیٹا نظر نہیں آرہا کیا بیمار وغیرہ ہے ؟؟ 
عبداللہہ چاچا: اللہ نہ کرے صاحب وہ بیمار ہو بس وہ اپنی ماں کے ساتھ کسی کام سے گیا ہے اس لیے آج میں خود ہی سب کچھ سنبھال رہا ہوں ۔ 
مینیجرر : اچھا تو آپ نے بیٹے کو تعلیم نہیں دلوائی ؟؟ 

عبداللہ چاچا: صاحب دس جماعتیں کروائی ہیں۔ اب میرے ساتھ کام میں شریک رہتا ہے۔ مینیجر : یہ تو اپنی اولاد سے آپ نے بہت ذیادتی کی۔ اس کی تعلیم کی عمر ہے اور یہ سارے کام کاج کروارہے ہیں آپ ! بس پھر کیا تھا مینیجر صاحب نے اچھا خاصا خطاب فرمایا اور عبداللہ چاچا چپ چاپ سنتے رہے۔ کافی دیر بعد جب عبداللہ چاچا کو بولنے کا موقع ملا تو بڑے نرم لہجے میں گویا ہوئے۔
 
 
 ""اگر آپ برا نہ منائیں مینیجر صاحب تو میں بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں ""

 مینیجر صاحب نے کہا جی ضرور بولیں۔

 عبد اللہ چاچا : دیکھیں صاحب ! آپ یہاں آفسر ہیں و کتنی تعلیم ہے آپ کی ؟ 
 مینیجر صاحب: جی میں سی اے مطلب چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہوں 


عبداللہہ چاچا : کتنا وقت لگا اس تعلیم کو حاصل کرنے میں؟ مینیجر صاحب: تقریبا تیس سال 
عبداللہہ چاچا: کتنی اجرت لیتے ہیں آپ ؟ مینیجر صاحب پہلے تو تذبذب کا ہوئے پھر کہنے لگے دو سوا لاکھ روپے۔ عبداللہ چاچا کہنے لگے دیکھیں صاحب میری دکان سے ایک ماہ کی آمدن دو لاکھ روپے ہے۔ اگر تعلیم کا مقصد پیسے کمانا ہی ہے تو میں میٹرک پاس بیٹے کے ساتھ آپ سے زیادہ کما رہا ہوں اور کام بھی اپنا ہے میرا کوئی باس نہیں۔ عبداللہ چاچا نے مزید اضافے کے ساتھ سوال کیا کہ اگر آج آپ کا انتقال ہو جائے تو کیا آپ کا بیٹا کل سے آپ جتنی آمدن حاصل کرنے کا اہل ہے ؟ یہ سوال سن کر مینیجر صاحب بالکل چپ ہو گئے اور تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بولے۔

 

"" نہیں وہ ابھی اس قابل نہیں ہوا مجھے تعلیم سے فراغت کے بعد کافی تجربے کے بعد یہ مقام ملا ہے۔ عبد اللہ چاچا کہنے لگے صاحب اگر میں آج مر بھی جاؤں نا تو میرا دس جماعتیں پاس بیٹا اتنی ہی آمدن کماتے ہوئے گھر سنبھال لے گا۔ اب آپ ہی بتائیے میں نے اپنے بیٹے سے کیا زیادتی کی ہے ؟؟؟

اتوار، 29 نومبر، 2020

بے چارے مزدور اور ناحق الزام تراشیاں

زندگی رواں دواں بڑھتی جارہی ہے۔ وقت کی تیزی ہمیں کسی کو بھول جانا بھی یاد کرواتی رہتی ہے اور کبھی کسی کا یاد کرنا بھی بھلا دیتی ہے۔زندگی کے مختلف مرحلے ہمیں مختلف اندیشوں میں مبتلا رکھتے ہیں مثلا بچپن کھیل کود اور چھوٹی چھوٹی خواہشات کے پورا نہ ہونے کا اندیشہ اور پھر جوانی کے افسانوی ماحول میں اکیلے پن اور کسی پیارے کی جدائی کے اندیشوں سے دوچار ہونا وغیرہ وغیرہ۔
پھر اچانک زندگی میں ایک نیا موڑ آتا ہے اور شادی شدہ ہونے سے پہلے یا بعد ذریعہ معاش بےشمار طرز کے اندیشے اور خطرات سے دوچار کردیتا ہے۔ غربت ،افلاس اور معاشی محتاجی ہر لمحہ مدنظر رہتی ہے۔ کاروبار یا ملازمت سامنے دو راستے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر ملازمت کو دیکھیں تو سرکاری اور نجی دو الگ الگ دنیائیں ہیں ۔ پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والے ایک عام انسان کی حیثیت سے میرے تجربات بہت تلخ ہیں ۔
ایک شام مجھے یہ احساس ہوا کہ مزدور بھی ایک غلام ہی ہوتا ہے کئی کام اور فیصلے اپنے سیٹھ کے حکم یا اجازت کے بغیر نہیں کر سکتا ۔ گھر جانے کے لیے چھٹی نہیں ملی اور بےبسی نے دل کی دنیا تہس نہس کر دی۔جذبات نے ایک آن میں ہی کئی فیصلے صادر کر دئیے۔ انہی سوچوں میں گم دو تین گزر گئے اور ایک نئی شام ایک نئے درد کو میرے سامنے لے آئی ۔
منظر نامہ کچھ یوں تھا کہ شام ہو چکی تھی چھٹی ہونے کچھ ہی وقت باقی تھا اور اذان مغرب ہو گئی۔ کافی دنوں بعد آج کام میں تیزی آئی تھی تو کام کو حجم بڑھ چکا تھا وقت کی قلت پیش نظر تھی۔ اچانک ایک کال آئی کہ فلاں مزدور اپنے کام والی جگہ سے غائب ہے کام میں تاخیر ہو رہی ہے۔ میرا جواب یوں تھا کہ نماز کا وقت ہو چکا ہے نماز کے علاؤہ کوئی اور وجہ نہیں ہو سکتی ۔سامنے سے یہ سننے کو ملا کہ یہ مزدور توروزانہ تین ساڑھے تین گھنٹے وقت ضائع کرتا ہے جس کی وجہ سے کام کی تکمیل میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ بہت کوشش کی کہ آج کام میں آنے والی تیزی اور دیگر وجوہات کی بابت بدگمانی دور کر سکوں لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ درگزر کرتے ہوئے شکایت دور کرنے کے لیے خود وہاں کام کرنے چلا گیا اور نماز کے بعد جب وہ واپس آیا تو میں پھر لوٹ آیا۔ واپس آکر جیسے ہی ہال میں داخل ہوا تو وہی صاحب چار بندوں کو اکٹھا کر کے وہی گردان الاپ رہے ہیں اور انتہائی ڈھیٹائی کا مظاہرہ کر ہے ہیں ۔ اب کیا تھا جذبات نے پھر دل کا رخ کیا لیکن صبر کیا اور محبت سے انہیں تصویر کے دونوں رخ بتا کر سمجھایا کہ آپ اس طرح کے الزامات نہ لگائیں۔ وہ مصر رہے۔ 


آخر چیونٹی بھی کاٹ ہی لیتی ہے یہ جانتے ہوئے کہ اب اسے مسل دیا جائے گا ۔ مختلف دلائل سے اوقات کار کے تفصیلات دکھا کر سمجھایا لیکن وہ بھڑک کر کہنے لگے مجھ سے غلطی ہوئی کہ تم سے شکایت کی اب تو جنرل مینیجر صاحب کو ہی فون کرنا پڑے گا ۔اللہ اکبر دھمکی اور وہ بھی حقیقت حال سے لاعلم ہو تے ہوئے۔ میں نے ان سے کہا کہ ابھی چلیں میرے ساتھ اور میرے سامنے ہی آپ دھمکی کو عملی جامہ پہنائیں۔ 
جنرل مینیجر صاحب نے بات سنی پیر تک انتظار کرنے کو بولا اور چلے گئے۔ اتنے میں ایک اور صاحب صلح کے میرے پاس آئے ۔ میں نے انہیں کہا کہ جھوٹے الزامات لگا کر کسی کی ملازمت کو داغدار کرنا کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے۔۔
میرے یہ الفاظ ابھی مکمل بھی نہیں ہوئے تھے کہ وہ مزدور بھائی بولے کہ میرا اللہ جانتا ہے کہ میں کتنا وقت ضائع کرتا ہوں اور میں وقت ضائع بھی کیوں کروں گا مجھے اضافی وقت کی کوئی اجرت نہیں ملتی۔ چھٹی کے سائرن کے ساتھ ہی میرا بھی دل کرتاہے کہ میں گھر چلا جاؤں لیکن میرے کام کو نوعیت کو نہ جاننے والا ایک انسان کیسے ایسے الزامات لگا سکتا ہے؟ ان کی آنکھیں نم تھیں آواز بھرا گئی تھی اور الفاظ دل چیرنے والے تھے"" شام کر گھر جاتے ہی تھکاوٹ سے چارپائی پہ پڑتا ہوں ہوش نہیں رہتا اور کل میرے سات سال کی بیٹی مجھے پونا گھنٹہ ہلاتی رہی کہ ابو مجھے دوائی دلانے کے جائیں لیکن جسم میں ہلنے کی بھی سکت نہیں تھی ۔ پچھلے چھ دن سے یہی کیفیت ہے اور الزام بھی یہ لگ رہا ہے کہ جان بوجھ کر تاخیر کر رہا ہوں ۔۔۔۔
وہ روتے جارہے تھے اور میرے ضبط کو آزمائش سے دوچار کرچکے تھے۔۔

یا اللہ لوگ کیسے تصویر کا ایک رخ دیکھ کر اور پھر حقیقت جاننے کی باوجود بے جا تنقید اور الزام تراشی کر لیتے ہیں 
یا اللہ تیری پناہ یا اللہ تیری پناہ 

جمعہ، 14 فروری، 2020

بچپن کی یادیں

بچپن کی یادیں
بچپن یاد آتے ہی چہرے پہ ایک مسکراہٹ ابھر آتی ہے۔یادیں عمر کے جس حصے سے بھی آنکھوں کے سامنے آ جائیں ڈھیروں سوال اور ان کے جواب ساتھ لے آتی ہیں۔کہیں ہمیں شوخ پن دکھائی دیتا ہے تو کہیں حد درجہ شرمیلی یادیں
۔راولپنڈی (چوہڑ)سے گاؤں منتقل ہونا آج بھی ایک خواب سا لگتا ہے۔ شروع کے دن کتنے کٹھن تھے پھر آہستہ آہستہ وقت اپنے نشان نمایاں کرتا گیا اور گاؤں کی اجنبیت کہیں اندھیروں کی مسافر بن گئی۔ پرائمری سکول سے جڑی یادیں شروعات میں کسی قید خانے کا تاثر دیتی ہیں۔لگتا تھا جیسے ہمارے اپنوں نے ہی ہماری آزادی چھین کر ایک سودے بازی کر لی ہے۔ اب سوچتا ہوں کہ وہ ماں باپ کی آنکھوں سے اوجھل رہ کر سکول میں گزرے ہوئے چھ سے سات گھنٹے ان کے لیے کتنے اذیت ناک ہوتے ہوں گے۔

ایک دفعہ بخار یا کھانسی کی دوا کھانے بغیر سکول چلا گیا تو ابو جان اتنے پریشان ہوئے کہ سکول آکر دوا پلا کر گئے کہ کہیں دوبارہ بیماری غالب نہ آ جائے۔ اس دن کو اب یاد کر کے اپنی دوا نہ لینے والے ضد بہت شرمندہ کر دیتی ہے۔ سکول کی پرانی عمارت پہ لکڑی کے کوئلے سے لکھا ہوا ’’علم بڑی دولت ہے‘‘ہمیشہ نامعلوم خوش خط لکھاری کی تعریف سے روک نہ پاتا تھا۔آج پرائمری سکول کی وہ ٹوٹی پھوٹی عمارت تو کہیں نظر نہیں آتی لیکن اس کی یادیں آج بھی انمٹ نقوش کے ساتھ تازہ ہیں۔بچپن کے لمحات کی یادیں اپنے سحر سے نکلنے نہیں دیتیں۔ایسا لگتا ہے کہ ہم آنکھ کھولیں اور سب ایک خواب کی طرح ختم نہ ہو جائے ۔بچپن کی یادوں کو سکول کی یادوں سے جدا نہیں کیا جا سکتا ۔ سکول کی زندگی میں چھٹی کی خوشی آج کل ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی کیونکہ ہم بڑے ہوگئے ہیں۔ کبھی کبھار ہڑتال کی خبر سن کے دعائیں مانگتے رہنا کہ یا اللہ آج استاد جی سکول نہ آسکیں اور چھٹی پہ مہر لگ جائے اور پھر اچانک استادجی کاپیدل ہی گھاٹی یاپھرسکول کے اوپری راستہ جو ’’نیلے پٹ ‘‘سے مشہورتھا ، سے نمودار ہونا اور ساری خوشی اداسی میں بدل جانا آج بھی ایک تازہ یاد ہے۔
سکول کی چار دیواری نہ ہونے کے باعث گاڑیوں کی آمدروفت پہ نظریں جمائے نئی نئی گاڑیوں کو دیکھ کر حیرت کے دریا میں غوطہ زن ہوجانا۔
کہتے ہیں کہ بچے لڑجھگڑ کر پھر اکٹھے ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ پرانی باتوں کو بھولنے کا فن جانتے ہیں ۔ جوانی اور پھر ادھیڑپن میں پہنچ کر ایک اس عادت کی بہت کمی محسوس ہوتی ہے۔
چند دن پہلے چھوٹے بھائی کہ شادی پہ ایک صاحب سے آمنا سامنا ہوا تو دیکھتے ہی پہچان نہیں پایا ۔اُس زمانے میں انہوں نے اپنی بس رکھی ہوئی تھی جو’’ مظہر ڈرائیور‘‘کے نام سے مشہورتھے، اِس وقت اُن کا ذکر بھی بچپن کی ایک دردناک یاد سے جڑا ہوا ہے۔جس پک اپ پہ ہم سکول جایا کرتے تھے وہ کسی مجبوری کی وجہ سے میسر نہیں تھی اور ایک بس پہ سکول جانے کا اتفاق ہوا اور پھر راستے میں ایک ہولناک حادثہ ہوگیا ۔ مخالف سمت سے آنے والی گاڑی کے ایک مسافر کی جان چلی گئی اور کافی لوگ زخمی ہوئے۔ آج بھی آئینہ دیکھتے ہوئے ناک کی ہڈی اس حادثے کو پھر تازہ کر دیتی ہے۔
بچپن میں سب سے حسین یاد والدین کی وہ محبتیں اور شفقتیں ہیں جن کا کوئی مول نہیں۔ آج پردیس میں بیٹھ کر ان عنایتوں اور شفقتوں کو بہت یاد کرتا ہوں،دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ میری طرح ہر شخص کو اپنے بچپن میں والدین،اساتذہ،دوستوں کی بے شمار محبتیں اوریادیں دوبارہ بچپن کے زمانے میںلے جاتا ہوگا۔ بچپن تو چلا گیا اور واپس نہیں آئے گا لیکن وہ کریم والدین جن کی بدولت ہمارا بچپن وقت کی کڑی دھوپ سے بچتا رہا،آج بھی پاس ہیں۔یا اللہ تیرا شکر ہے۔

بدھ، 22 جنوری، 2020

عدل کے مینار

ہمیں اپنی زندگی میں خود سے زیادہ دوسروں سے انصاف کی ضرورت اور توقع ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ بھلے لوگ جس جگہ سے گزر جائیں راستے ان کے نشان محفوظ کر لیتے ہیں تاکہ یادگار رہے۔
دنیائے اسلام میں خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو سب جانتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ اپنے دور خلافت میں جہاں اسلامی سلطنت کو وسعت ملی وہیں زمین کو عدل سے بھر دیا گیا۔
آپ رضی اللہ عنہ کے عدل و انصاف کے واقعات سے کتب بھری پڑی ہیں۔

اس دور جدید کی روشنی بھی ایسے چمکتے ستاروں کو ماند نہیں کر سکتی۔ آج بھی اللہ تعالی کی عطا سے اللہ والے تصرف کرتے ہیں اور اللہ تعالی کی شان و عظمت کے اظہار کا باعث ہیں۔
عمرہ کی سعادت سے واپس آنے والےایک دوست کی زبانی یہ واقعہ سنا ۔کہتے ہیں کہ ایک غریب شخص تلاش معاش  کے سلسلے میں مدینہ طیبہ روانہ ہوا۔ سالوں سال محنت سے پیسے کماتا رہا۔ اس کا معمول تھاکہ ہر ماہ ضروری مقدار میں تنخواہ کفیل سے لے لیتا اور باقی  بچا کر رکھتا رہتا۔بیٹیاں جوان ہوکر شادی کے لائق ہو رہی تھیں اور رشتے دیکھے جا رہے تھے۔ مزدور امید اور توکل میں ایک پہاڑ جیسا سخت ہوتا ہے وہ بھی اس امید سے خوش ہوتا کہ میں نےاچھے خاصے پیسے جمع کر لیے ہیں کہ شادیاں دھوم دھام سے کروں گا۔
وقت گزرتا گیا اور رخصت لیکر گھر جانے کا وقت قریب آگیا۔کفیل کے پاس گیا اور پاکستان واپسی  بارے آگاہ کیا اور ساتھ ہی اپنی جمع پونجی کا مطالبہ کیا۔ ہائے غریبی بھی کیسے ستم ڈھاتی ہے کیسے کیسے امتحان لیتی ہے۔ کفیل کے جواب نے جیسے سانس میں رکاوٹ ڈال دی ہو۔ آسمان جیسے سر سے غائب ہوگیا ہو زمین پاؤں سے سرک گئی ہو ۔
کفیل نے کہا"کونسے پیسے ؟ میں تو ہر ماہ تمھیں پوری تنخواہ ادا کر چکا ہوں" یہ کہتے ہوئے وہ ایک  فائل اٹھا لایا اور اس میں موجود ہر ماہ لیے جانے والی تنخواہ اور دستخط دکھانے لگا۔
کفیل کی اس دھوکے بازی اور اپنی سادگی پہ وہ شخص حیران و پریشاں واپس لوٹ آیا کہ اب گھر کس منہ سے جاؤں گا،؟بیٹیوں کی شادی کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟یہ سوچ اتنی اذیت ناک تھی کہ ایک ایک ساعت صدیوں جیسی لگنے لگی۔
رہائش گاہ واپس آکر مخلص دوستوں سے دکھ بیان کیا۔ سب یہ ماجرا سن کر دکھی ہوئے اور کہنے لگے دیار غیر ہے کسی نے ہماری فریاد نہیں سننی۔
اسی غم کے عالم میں ایک دوست جو خیال آیا کہ جاؤ جاکر کفیل سے کہہ دو کہ میری تسلی کے لیے مسجد نبوی میں آکر کہہ دے کہ "میں نے تمہارے کوئی پیسے نہیں دینے"اس امید پہ کہ کفیل اپنی اور میری حالت پہ رحم کرتے ہوئے اتنی بیباکی کبھی نہیں دکھائے گاوہ شخص چل پڑا لیکن کفیل فورا تیار ہوگیا اور مسجد نبوی چلنے کے لیے راضی بھی ہوگیا ۔اس  صورت حال کو دیکھ کر شخص کہنے لگا ٹھیک ہے مجھے یقین آگیا ہے تمھیں مسجد نبوی جانے کی کوئی ضرورت نہیں
اگلے دن اس کے دل میں خیال آیا کہ اب اسے جا کر کہتا ہوں کہ مجھے تسلی نہیں ہوئی آؤ اور خلیفہ دوئم عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی قبر کے سامنے جالیوں کو ہاتھ لگا کر کہہ دو کہ "میں نے تمہارے سارے پیسے ادا کر ہیں اور مزید کچھ بھی واجبات نہیں رہتے"حسب سابق کفیل تیار ہو گیا اور مسجد نبوی میں حاضر ہوگیا۔
جیسے ہی جالیوں کی طرف ہاتھ بڑھایا ہاتھ وہیں جکڑا گیا منہ سے کوئی لفظ ادا کرنا محال ہو گیا۔کفیل رونے لگ گیا اور بمشکل اتنا کہہ سکا کہ ''میں تمہارے سارے پیسے دوں گا مجھے معاف کردوبس معاف کردو"یوں ظالم کفیل اور اس مظلوم شخص کی جان میں جان آئی۔
اللہ تعالیٰ بے شک بڑا بے نیاز ہے۔

www.twitter.com/attockiann

میری ذات میری تلاش

 آج تین دہائیاں پیچھے دیکھتا ہوں تو کوئی پکارا جاتا ہے اپنے والدین کی نسبت سے۔ اپنے آباء کی نسبت سے۔ کیا یہی وقت ہے اپنی ذات بارے سوال پوچھن...